حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نمایندۂ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای ،بھیک پور،بہار،ہند نے بتایا کہ چونکہ ماہ جنوری کے وہ قیامت خیزایام پھرآپہوچے جسمیں روح اللہ امام خمینی دنیا سے گزرے ،یہی وہ تاریخ تھی جسمیں کتنے یتیم ہوئے،بے سرپرست ہوئے ،لاتعدادگھراجڑے،اب فکریہ تھی کہ بے سہاراکوکون سہارادے کہ شکرخدا! آپکے مشن کوآگے بڑھانے والے رہبرعزیزنے لوگوں کے آنسوں کوپوچھے،امید کی کرنیں ظاہر ہونے لگیں اورآہستہ آہستہ پوری دنیامیں ولایت فقیہ کی چاہت کانعرہ لگنے لگا، جیسے جیسے سال کایہ مہینہ آتاہے لوگ جوق درجوق ہفتوں یاد امام خمینی میں سبھی مصروف ومشغول ہوجاتے ہیں،اسی سبب آج حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای م،بھیک پور،بہارمیں نہات عظیم پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدرضوی مدیرقرآن وعترت فاونڈیشن (علمی مرکز،قم،ایران) نے اپنے پیغام میں فرمایا!اسلامی انقلاب کی کامیابی میں مولف،مصنف اورمترجم کابھی ایک بڑاحصہ تھا،اسی سبب آج اس پروگرام میں مترجم، مولف، مصنف، مقررین نے یہ ثابت کیاکہ اگرہمارے ذریعے اگربزم نظم ہی سے کیوں نہ ہویہ انقلاب محفوظ رہ سکتاہے توہمہ وقت اس جاںفشانی کے لئے تیارہیں،یادامام خمینی میں ان عناوین کے فعال حضرات نے بڑھ چڑھکرپروگرام کوبنانے میں کامیابی حاصل کی۔
شہید مطہری کاکیاکہناانکی تصانیف کے بارے میں اہم لوگ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جنہوں نے بڑی خدمت انجام دیں ، لیکن ہم اس حقیقت سے انکار کیسے کر سکتے کہ بہت سے افراد نے توان کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اسلامی اور سیاسی مسائل کی طرف توجہ مبذول کی ، یعنی انہوں نے اسلامی انقلاب کے حامیوں کی صف میں شامل ہو کر بھرپور کردارا داکیا ،غیر ممالک میں قائم طلبہ کی اسلامی انجمنوں کے نام خطوط میں آپ نے باربار اسلام سےمتعلق سرسری اورغیر ماہرانہ معلومات کے بارنمیں خبردارکیاہے،امام خمینیؒ نے مسلم دانشوروں اورمفکروں کوخراج تحسین پیش کرنےکےساتھ انہیں نام نہادعلما ع کے خطرات سے ہمیشہ آگاہ فرمایا!
اس پروگرام میں مختلف حضرات نے امام خمینی کی جانفشانی پہ ذکرکرتے ہوئے فرمایا! اسلامی انقلاب کا عروج اور عوام امام خمینی دنیا اورایران میں رونما ہونیوالی تبدیلیوںکا بغور جائزہ لیتے رہتے ہیں ،اسلئے موقع غنیمت جانکر ایک پیغام کے ذریعے آپ رح فرمایا:اسوقت ایک ایسا موقع ہاتھ آیا ہے جس سے فائدہ اٹہاتے ہوئے ثقافتی حلقوں،محب وطن طبقوں،غیرممالک میں مقیم اوراندرون ملک کے طلبہ وطالبات اوراسلامی انجمنوںکوچاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہوں سے آشکارا اٹھ کھڑے ہوجائیں،کروڑوں مسلمانوں کی پرواکئے بغیرانکی تقدیر پر مٹھی بھراوباشوںکومسلط کرناایران کی غیر قانونی اوراسرائیل کی پٹھو حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق غصب کرنااورانکی آزادی چھیننااسکے علاوہ کچھ نہیں،یہ سارے جرائیم امریکہ کے ہیں جوقابل برداشت نہیں۔
آیت ا اللہ حاج آقامصطفی خمینی رح نے جو جام شہادت نوش کیا،اوراس موقع پرایران میںمنعقدہونیوالے تعزیتی پروگرام نے حوزہ ہائے علمیہ کی دوبارہ بیداری اور ایران کے مذہبی معاشرے کی تحریک کا ازسرنو آغازتھاغاز،امام خمینی رح نے حیران کن انداز میںا پنے فرزند کی شہادت کو اللہ تعالی کی غیبی رحمت قراردیا،شاہی حکومت نے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے اطلاعات نامی اخبار کے ایک مقالے میں اما م کی شان میں جب توہین کی تواس مقالے کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے قم شہر میں ایک احتجاجی مہم شروع ہوئی جسکے دوران بعض انقلابی طلبہ کا خون بہایا گیا۔ اس طرح ایک بار پھر تحریک کا آغاز قم سے ہوا جو اس تاریخ کی تحریک سے بالکل مختلف حالات میں قلیل مدت کے دوران پورے ملک کے اندر پھیل گیی تبریز،یزد،اصفہان،اورتہران میں اس تحریک کے شہدا کے سوئم ، ہفتم اور چہلم کو موقعوں پر جب مزید فسادات ہوئے،تواس دوران امام خمینی رح کے عقیدت مند نے آپ رح کے پیغامات اورتقریروں کی کیسٹیں رکارڈ کاکراکے ملک بھر میں تقسیم کرتے رہے جن میں امام ، عوام کو دعوت دیتے تھے کہ وہ بادشاہت کی بنیادوں کو ڈھادینے اور اسلامی حکومت کی تشکیل تک استقامت کے ساتھ تحریک جاری رکھیں۔۔۔۔عوام کے قتل عام کے با وجود شاہ ایران کی بھڑکی ہوئی آگ کے شعلوں کو بجھانہ سکا ۔ شاہ کی سیاسی چالیں اور فوجی ہتہکنڈے عوام کے غم وغصہ کی لہر کو کم کرنے میں معمولی اثر چھوڑ نے سے پہلے ہی ، امام خمینی رح کی طرف سے پردہ چاک کرنے والے بیانات اورجہادی منشورکے اجرا کے ساتھ ناکام ہوجا تے تھے۔
امام خمینیؒ ابتدا سے ہی اپنی تحریک کی رہنمائی اس آیہ شریفہ کی بنیاد پرکرتے رہے (ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر و ا مابانفسہم )اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے ) امام خمینی نے سب سے پہلے ثقافتی تبدیلیاں پیداکیں، اسکے بعد عوام کے ذریعے انقلاب برپا کرکے معاشرتی تبدیلیاں میں لگے یعنی کہنایہ چاہتے ہیں کہ جماعتی اور پارلمانی جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی ،۔ آپ دشمن طاقت کوتوڑنے کے لئے بہترین راہ حل دیاکرتے تھے ،انقلاب اسلامی ایران میں، مساجد اور دینی مراکز عوامی تحریک اور اجتماع کے اصل مراکز تھے عوام کے نعرے عام طور پر دینی تعلیمات اور امام خمینی کی رہنمائیوں پر مبنی ہوتے تھے۔
اس پروگرام کے ناظم نے مذکورہ عنوان پر فرمایا!میں تویہی سمجھاہوں اگرکسی کودین مومذہب کے لئے انقلابی بننا ہے تواسے امام خمینی کوخوب پڑھناچاہیئے اوریہ ہمارے لیے حوزہ علمیہ آیةاللہ خامنہ ای کے ایک نعمت جس نے ہملوگوں کوبہت کچھ دیاہے اوردیتارہیگا،خداوند عالم سے یہی دعاہے کہ یہ حوزہ ہمیشہ پھولے ،پھلے اورکامیاب رہے۔
یادرہے امام خمینی نے ایک پیغام کے ذریعے شاہ کے مکر و فریب سے پردہ اٹھاتے ہوئے تجویز دی : جب تک مقبوضہ فلسطین آزاد نہیں ہوتا ، مسلمانوں کو مسجد الاقصی کی مرمت نہیں کرنیچاہئے ، صہیونزم کے جرائم کو مسلمانون کی نظروں کے سامنے زندہ رکھناچاہئے تاکہ فلسطین کی آزادی کی جد وجہد میں تیزی آسکے ۔ چار سال تک درس وتدریس ، سعی و کوشش اور فکروں کو جلا بخشنے کے بعد امام خمینی کسی حد تک اس فضاکی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے ۔ ملک کے اندر موجود بے شمار مجاہدوں کے علاوہ عراق ، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے، جو امام خمینی کی تحریک کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتے تھے۔ میں تواندیشہ امام خمینی کاایک ادنیٰ طالب علم ہوں بس اتناجانتاہوں کہ امام خمینی نے اوائل میں اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ کے موضوع پر درس کا آغاز کیا ۔دروس کے اس مجموعے کو ولایت فقیہ یا حکومت اسلامی کے عنوان سے کتابی شکل دے کر موسم حج میں ایران ، عراق اور لبنان سے چھپوااکر تقسیم کیا گیا جس سے تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی ۔اس کتاب میں جہادی عمل کے خدو خال اور انقلابی مقاصد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قائد انقلاب کی زبان سے اسلامی حکومت فقہی ، اصولی اورعقلی بنیادوں پر تشریح اور اسلامی حکومت کے طرز وروش سے متعلق نظریاتی مباحث پیش کی گئی تہیں۔۔۔۔ نجف اشرف پہنچنے کے فورا بعد امام خمینی نے خطوط اورنمائندوں کے ذریعے ایران میں جہادی عناصرسے اپنا رابطہ قائم کرلیا ، آپ ان پر ہر وقت 5 جون کی تحریک کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ثابت قدم رہنے کی تاکید فرماتے رہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے خطوط میں آپ نے کھل کر اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ عنقریب ایران میں ایک سیاسی دھماکہ ہونے والا ہے ، لہذا ایرانی علما ع کو آنے والے وقت میں معاشرے کی رہنمائی کے فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ یہ پیش گوئیاں اس وقت کی گئی تھیں کہ بظاہر حالات میں تبدیلی کی ذرہ برابر توقع نہیں پائی جاتی تھی بلکہ شاہی حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور انداز میں ہر قسم کی مزاحمتوں کو کچلنے میں کامیاب نظر آتی تھی۔
اس پروگرام میں حوزہ علمیہ ایران کے حجة الاسلام والمسلمین مولاناکاشف صاحب نیعراق کی طرف جلا وطنی کے سلسلے سے فرمایا!اکتوبر کو امام خمینی اپنے فرزند آیت اللہ حاج آقا مصطفی کے ہمراہ ترکی سے اپنی جلاوطنی کی دوسری منزل عراق پہچادئے گئے ۔جو امام کے مقام جلا وطنی کی تبدیلی کی وجوہات اور محرکات کو اس مختصر وقت میں مفصل طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ، البتہ اس کے اہم وجوہات بطورمختصریہ ہیں: اندورون اور بیرون ملک کے مذہبی حلقوں اور دینی درسگاہوں کے علما اور طلبہ کا مسلسل دباو ، بیرون ملک مقیم مسلمان طلبہ کی طرف سے امام کی رہائی کیلئے کی جانے والی کوششیں اورمظاہرے،امریکہ کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے شاہی حکومت کی طرف سے حالات کو معمول کے مطابق قرار دینے اور اپنی طاقت واستحکام ثابت کرنے کی سعی ، سکیوریٹی کے نقطہ نگاہ اور ذہنی تحفظات کے سلسلے میں ترک حکومت کو درپیش مسائل اور ترکی کے مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت پر دباو مندرجہ بالا وجوہات ۔ سے بڑھ کر سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ شاہ خام خیالی سے سوچنے لگا تہا کہ اس دور میں حوزہ علمیہ نجف اشرف پر طاری سکوت اور سیاست مخالف فضا میں امام کی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ جائیں گی ، اس کے علاوہ بغداد کی حکومت بھی ان کی راہ میں روڑ ے اٹکائے گی۔بغداد پہنچنے کے بعد امام خمینی ائمہ اطہار کی زیارت کیلئے کاظمین، سامرا اور کربلا کے دورے پر گئے ، اور ایک ہفتے کے بعد اپنی اصلی اقامتگاہ نجف اشرف چلے گئے ۔ ان شہروں میں طلبہ، علما اور عوام نے آپ کا شایان شایان استقبال کیا ، اس سے شاہی حکومت کی سوچ کے بر عکس یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ 5 جون کی تحریک کے پیغام کو عراق بالخصوص نجف اشرف میں بھی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تھی ۔ عراق کے صدر عبدالسلام عارف کے ایلچی سے امام خمینی کی مختصر گفتگو اور ابتدامیں ہی عراقی ریڈیو ٹیلی ویژن پر انٹریو کی پیش کش کو ٹہکرانے سے ثابت ہو گی کہ امام کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے الٰہی جہاد کو بغداد اور تہران کی حکومتوں کے آپس کے مفادات پر قربان کریں ۔ا مام کی یہ پالیسی عراق میں قیام کے پورے عرصے میں قائم و دائم رہی ، اس لحاظ سے بھی آپ کا شمار دنیا کے ان معدودے چند سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو تکلیفوں اور سخت ترین دباو کی حالت میںبھی اپنے اعلی مقاصد پر سودا بازی کیلئے تیار نہیں ہوتے ، جبکہ اس وقت ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی تھی اور امام کی طرف سے معمولی گرین سگنل دکہانے سے شاہ کے خلاف لڑنے کیلئے آپ کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم ہو سکتی تہیں لیکن نہ صرف یہ کہ امام نے ایسا نہیں کیا بلکہ آپ دونوں محاذوں پر بیک وقت برسرپیکار رہے ، بعض موقعوں پر آپ نے بغداد حکومت کی تحریک چلانے کی حد تک مخالفت کی ۔ اس بات میں کوئی شک و شبھہ کی گنجائش نہیں کہ اگر امام کا فہم و فراست نہ ہوتا تو اسلامی انقلاب بھی انہی راستوں پر بھٹک جاتا جن پر چل کر ایران کی مختلف تحریکیں ، سیاسی محاذ اور سیاسی جماعتیں ،وابستگی یا شکست کے بھنور میں ڈوب گئی تھیں ۔نجف اشرف میں امام کی طویل سالہ قیام کا آغا ز ایسے حا لات میں ہوا جن کی روسے بظاہر ایران اور ترکی میں پائے جانے والے براہ راست دباو اور پابندیاں تو موجود نہیں تھیں لیکن آپ کوبڑے پیمانے پر اور تکلیف دہ حد تک مخالفتوں ،رکاوٹوں اور زبانی چوٹوںکاسامنا کرناپڑا ، وہ بھی دشمن کی طرف سے نہیں بلکہ دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے دنیا پرست اور نام نہاد علما کی طرف سے ، اس حالت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام نے بارہا ان برسوں میں اپنی جدوجہد کے سخت حالات کی تلخی سے یاد کیاہے ، در حالیکہ آپ صبر و برد باری میں شہرت رکھتے تھے ۔تاہم ان میں سے کسی قسم کی تکلیف یا سختی امام کو اس مشن سے منحرف نہ کرسکی جس کو آپ نے سوچ سمجھ کر چنا تھا ۔ امام خمینی کو پہلے سے ہی علم تھاکہ ایسی فضا میں جہاد کی بات کرنا یا تحریک کی دعوت دینا بے سود ہے ، لہذا آپ کو چاہئے تھاکہ از سرنو ایسے نقطے سے جہادی عمل کا آغا ز کریں جہاں سے آپ5 جون کی تحریک کے ذریعے برسوں پہلے ایران اور حوزہ علمیہ قم میں اپنی جو جہد شروع کی تہی یعنی حالات کی تدریجی اصلاح اور تبدیلی پیدا کرنے کے علاوہ ایسی نسل کیتعلیم و تربیت جو آپ کے پیغام اور مقا صد کو سمجھ سکے ۔ اسی لئے مفاد پرست عناصر کی مخالفت اور رکاوٹ کے باوجود امام نے نجف اشرف کی مسجد شیخ انصاری میں فقہ کا درس خارج دینا شروع کیا جس کا سلسلہ عراق سے دوسرے ملک کی ہجرت تک جاری رہا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدرمدیرحوزہ علمیہ آیة اللہ خامنہ ای بھیک پور،ہند نے اپنی اختتامی تقریرمیں فرمایا!:شاہ ہمیشہ اپنے غروروتکبرمیں رہکرقتل وغارت ،خونریزی، اورفتنہ وفسادکواپنی زندگی کاہنرسجھتاتھا،اسی وجہ سے امریکہ جیسے اس میدان کے اپنے دوست اورساتھی کوہمیشہ اپنامعاون اورمددگارسمجھا۔ اسی لئے کسی شخص میں حکو مت کی مخالفت کی جرات نہیں ہوسکی لیکن امام صادق کے سچے عاشق ان حالات میں بھی اپنی تاریخی ذمہ د اری نبھانے کے مصمم عز م وارادے کے ساتہ تحریک چلانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے، اورجب قم میں اپنی انقلابی تقریرکرنی چاہی توشاہ نے باقاعدہ اپناایلچی پیش کیا تاکہ آپ تقریرکرنے سے رک جائیں،لیکن ایساہوانہیں؟ آپ نے شاہی ایلچی کے ساتھ ملاقات سے انکار کیا اور شاہ کا پیغام امام کے فرزند آیت اللہ حاج آقا مصطفی کو سنایاگیا ۔امام خمینیکی جرات پرلاکھوں سلام آپ نے شاہ کی دہمکیوں کی پروا کئے بغیر مقررہ دن کو قم اور دوسرے شہروں کے علمائے کرام اور عوام کے جم غفیر سے اہم تاریخی خطاب فرمایا : اس خطاب کا موضوع ایران کی اسلامی مملکت کے معاملات میں امریکی حکومت کی غیر قانونی مداخلات کی مذمت اور شاہ کی غداریوں کو بے نقاب کرناتھا ۔ آپ نے فرمایا! ہماری عزت پامال ہوگئی ایران کی عظمت مٹ گئی انہوں نے ایرانی فوج کی شان وشوکت کو پاوں تلے روند ڈالا انہوں نے مجلس میں ایک قانونی بل پیش کیا ہے جس کی رو سے ہمیں دنیا معاہدے سے مربوط کیا جا ئے گا۔ صاحب! میں تجھے خطرے سے آگاہ کرتا ہوں ، ایرانی فوج کے جوانوں کے خطرے کی اطلاع دیتا ہوں ، ایران کے سیاسی لوگوں! میں تمہیں خطرے سے آگاہ کرتا ہوں ۔۔۔ واللہ وہ شخص گناہگار ہے جو آواز نہیں اٹھاتا؟ تا ، صدا ئے احتجاج بلند نہیں کرتا )ایسا نہ کرنے والاگناہ کبیرہ کا مرتکب ہواہے، اے اسلام کے رہنماو ، اسلام خبر لو، اے علمائے نجف اسلام کی خبرلو، اے قم کے علما اسلام کی خبر لو )،امام خمینی نے ایک انقلابی بیان جاری کیا جسمیں آپ نے لکھاتھا: دنیا کو یہ جان لینا چاہئے کہ جن مصیبتوں سے ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام دچارہیں وہ سب اغیار کی طرف سے پیدا کی گئیں ہیں ، یہ مصیبتیں امریکہ کی وجہ سے پیداہوئی ہیں جس بناپرسبھی لوگ عام طورپر اغیار سے اور خاص طورپر امریکہ سے متنفر کرتی ہیں۔ یہ امریکہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے ، یہ امریکہ ہے جو اسرائیل کو تقویت دے رہاہے تاکہ وہ مسلمان عربوں کو گھر سے بے گھر کر دے،امام خمینیؒ کی جانب سے کی جانب سے ایک طرف ایک بل کی روائی نے ااکتوبر میں ایران کو ایک نئی تحریک کی دہلیز پر لاکرکھڑا کیا ،تودوسری طرف شاہی حکومت اس سے گذشتہ سال خرداد کی تحریک کو کچلنے کے تجربے کے بل بوتے پر تیزی سے حرکت میں آنے لگی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دوران امام خمینی کے انقلاب کی حمایت کرنے والے ممتاز دینی اور سیاسی رہنما یا تو زندانوں میں مقید ہوچکے تھے یا شہر بدری اور ملک بدری کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔ بعض مراجع تقلید اور بلند پایہ علماع جنہوں نے 5 جون کی تحریک میں جوش خروش کے ساتہ حصہ لیا تھا، اب آہستہ آہستہ مصلحت اندیشی کی خاموشی کے ساتھ میدان چھوڑکر جاچکے تھے ، شاہی حکومت کو اصل خطرہ امام خمینی کے وجود سے تھا کہ اگریہ خاموش ہوجائیں توسبھی کی خاموشی آسان ہوگی ، شاہی حکومت کو ماضی کا تلخ تجربہ تھا کہ امام کی گرفتاری سے ملک کے اندر حکومت کوسو قسم کے مشکلات سے روبرو ہونا پڑے گا ۔ آپ کو جان سے ماردینے کی صور ت میں بھی ملک کے اندر ایسی بغاوت جنم لے سکتی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہوگا،مختصریہ کہ آخر کار امام کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔لیجے صبح ایک بار پھر تہران سے بھیجے ہوئے مسلح کمانڈوں نے قم میں امام کے دولتکدے کا محاصرہ کیا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امام خمینی کوگذشتہ سال کی طرح عین نماز تہجد کے وقت پر گرفتار کیا گیا ! امام کو گرفتار کرنے کے بعد سکیوریٹی فورسز نے آپ کو تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر پہنچا دیا۔ جہاں سے پہلے سے ہی تیار ایک فوجی طیارے کے ذریعے سکیورٹی فورس اور فوج کی نگرانی میں آپ کو ترکی کے دارالحکومت ،انکارہ لے جا یا گیا ۔ اس دن شام کے اخبارات میں ساواک نے ملکی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرنے کے الزام میں امام کی ملک بدری کی خبر شایع کی ۔ گھٹن کی فضا طاری ہونے کے باوجود ایک وسیع احتجاجی مہم شروع ہوئی جسمیں تہران کے علاقہ بازار میں عوامی مظاہرے ، حوزہ ہائے علمیہ میں درس و تدریس کے سلسلے کی طویل مدت تک بندش اور بین الاقوامی اداروں اور مراجع تقلید کے نام اجتماعی دستخطوں کے ساتہ خطوط کا ارسال شامل تھا۔امام خمینی کی جلا وطنی کے اگلے دن آیت اللہ مصطفی خمینی کویہی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ، کچھ دنوں کے بعد جنوری کے دن ان کو بھی جلا وطن کر کے اپنے والد گرامی کے پاس ترکی پہچا دیا گیا ، امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کا دور بہت سخت اور اذیت ناک تھا، حد یہ ہے کہ آپ کو علما ع کے لباس پہننے کی بھی ممانعت کی گئی تھی ۔ اس کے با و جود کسی قسم کا ذہنی اور جسمانی تشدد انہیں سازش قبول کرنے پر مجبور نہ کر سکا۔ترکی پہنچتے ہی امام کو انکاراکے ہوٹل بلوار پیلس کی چوتھی منزل کے کمرہ نمبر میں رکھاگیا اور دوسرے دن ان کی اقامتگاہ کو خفیہ رکھنے کیلئے انہیں اتاترک ایونیو پر واقع کسی جگہ منتقل کیا گیا، اسکے چند دن بعد جنوری کو مزید گوشہ نشین کرکے ہر قسم کے روابط منقطع کرنے کے لئے آپ کو انقرہ کے مغرب میں چندکلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہربورسا منتقل کر دیا گیا ، اس دروان امام خمینی کے لئے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے امکانات بندہوگئے آپ کی نگرانی براہ راست ایرانی حکومت کے کارندے اور ترک حکومت کے سکیوریٹی والے کرتے تھے۔
امام خمینی ترکی میں رہے ، اس عرصے میں شاہی حکومت ایرن کے اندر موجود انقلابی قوتوں کو کچلنے میں کامیاب ہونے لگی اور امام خمینیکی غیر موجودگی میں فورا امریکہ کی من پسند اصلاحات نافذ کی گئیں ، عوام اور علما ع کے دباو کی وجہ سے حکو مت اس بات پر راضی ہو گئی کہ گاہے بگاہے امام خمینیؒ کے حال احوال سے مطلع ہونے اور آ پ کی صحت و سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کیلئے انکی طرف سے نمائندے بھیجیں ، اس عرصے میں امام خمینی اپنے رشتے داروں اور حوزہ علمیہ کے بعض علما ع کے نام خطوط میں اشاروں کنایوں سے اور دعاوں کی صورت میں انقلابی عمل کو ثابت رخ کو جاری رکھنے کے ساتھ کتب ادعیہ اور فقہی کتب ارسال کرنے کی درخواست کرتے رہے،یعنی ترکی کے اس حالات کے قیام میں بھی امام خمینی نے کتاب تحریر الوسیلہ کی تصنیف مکمل کی۔
پروگرام میں شعراع کرام کے لئے مصرعہ(حوزے میں انقلاب خمینیؒ پڑھیں گے ہم) دیاگیا۔جس مصرعہ پربزم مسالمہ ہوا اور۲۰شعراع کرام نے یاد امام خمینیؒ منظوم نذرانہ عقیدت پیش کئے۔